HUSAIN SAHIL / DIVKER

HUSAIN SAHIL   /  DIVKER
BE GOOD ! DO GOOD !!

Tuesday, December 6, 2022

MAI BHI SOCHU TU BHI SOCH.








محمد حسین ساحل

ممبٸی

افسوس ! ہمیں کہاں ہونا تھا ہم کہاں ہیں

١۔   دنیا میں سب سے زیادہ کتابیں پڑھنے والی قوم یہودی کی  ہے ان کا کتابیں پڑھنے کا سالانہ اوسط 72 کتابیں ہیں۔ جب کہ مسلمانوں کا سالانہ اوسط صرف اور صرف 6 منٹ ہے۔


٢۔  ہمارا یہ المیہ ہے کہ سرکاری دفتروں میں ہم ٹھیک سے بات نہیں کرسکتے۔کسی آفیسر کو اپنی بات سمجھا نہیں سکتے۔ ہم کو ایک اپلیکیشن لکھنا نہیں آتی یہ چھ منٹ کتابیں پڑھنے کا نتیجہ ہے۔


٣۔   حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ اپنے بچوں کی اپنے زمانے کے حساب سے پرورش نہ کریں بلکہ آنے والے زمانے کے حساب سے پرورش کریں، تمھارا زمانہ کچھ اور ہے تمھارے بچوں کا زمانہ کچھ اور ہوگا۔


٤۔   ہمارے بچوں کو ایس ایس سی اور ایچ ایس سی پاس کرنے کے بعد انھیں گاٸیڈ کرنے والا کوٸی نہیں کہ آگے کونسے کالج میں کس کورس میں داخلہ لینا ہے۔


٥۔    بچے اور والدین کو تعلیمی امداد حاصل کرنے کے لٸے امدادی اداروں کے نام اور پتےنہیں معلوم۔


٦۔    سماجی متحرک حضرات کو چاہیے کہ امدادی اداروں کی فہرست اسکول اور مسجدوں کے نوٹس بورڈ پر آویزاں کریں۔


٧۔    اقلیتوں کے لٸے سرکاری   سہولیات اور امدادی اسکیم موجود ہیں مگر ہمیں اس کی خبر ہی نہیں۔


٨۔   سرکاری،نیم سرکاری اور نجی کمپنیوں میں روزگار کے مواقع  موجود ہیں مگر ہم اس سے لا علم ہیں۔ ہمیں یہ بھی نہیں معلوم کے روزگار کے اشتہارات کن اخباروں میں کس دن شاٸع ہوتے ہیں۔


٩۔    ہمارے جو لوگ کسی سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں کام کرتے ہیں وہ اپنے محلے یا علاقے کے تعلیم یافتہ بچوں کی روزگار کے تعلق سے رہبری ہی نہیں کرتے۔


١٠۔  بینکوں میں 10سال سے کم عمر کے بچوں کے لٸے ان کے روشن مستقبل کی اسکیمیں ہیں مگر نہ ہمیں معلوم ہے اور نہ ہمیں کوٸی بتانے والاہے اور نہ ہم معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔


١١۔  ہمارا شادیوں کابجٹ لاکھوں روپیوں کا ہے مگر ہمارے پاس تعلیم کا کوٸی بجٹ نہیں۔


١٢۔  زکوٰۃ  کی تقسیم کا طریقہ کار اگر درست ہوگا تو ہرضرورتمند تک زکوٰۃ پہنچے گی اور اپنے علاقے کا ہر بچہ تعلیم یافتہ ہوگا۔


١٣۔  ہمارے سماج میں تعلیمی بیداری کا تناسب بہت کم ہے، آوارہ گردی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔


١٤۔  ہمارے محلوں میں کھانے پینے کی دکانوں کی کثرت ہے دوسروں کے محلوں میں کمپیوٹر ،ٹیوشن کلاس  سینٹر کثرت سے ہیں۔


١٥۔  ہمارےبچے چاٸے کی دوکانوں پر وقت برباد کرتے ہیں ، دوسروں کے بچے اپنا وقت لاٸبریری میں گزارتے ہیں۔


١٦۔  اُردو کے ٹیچر اُردو کے نام پر پچاس پچاس ہزار تنخواہ لیتے ہیں مگر اردو کا ایک اخبار نہیں خریدتے۔


١٧۔  آپ انگریزی پڑھیے ،جرمنی پڑھیے ، فرینچ پڑھیے مگر اس کے ساتھ اردو ضرور پڑھیے۔


١٨۔ ہمارا بچہ جب اسکول سے گھر آتا ہے تو ماں پوچھتی بیٹا بھوک لگی ہے ؟ روٹی کھاٸے گا ؟


١٩۔  دوسروں کے گھروں میں بچہ جب اسکول سے آتا ہے تو ماں پوچھتی ہے ٹیچر نے آج کیا پڑھایا۔


٢٠۔  ہمارے لوگوں کو اب تک میڈی کلیم   کیا ہے یہ معلوم ہی نہیں۔


21 -ہمارے شہر میں وکیل ہیں ڈاکٹرس ہیں  انجینیرس ہیں  مگر آٸی پی ایس آفیسرس نہیں ایسا کیوں ؟



٢٢۔   ہم چین کے تعلق سے منفی سوچ رکھتے ہیں مگر چین کے بناٸیں ہوٸے جاٸے نماز اور تسبیح استعمال کرتے ہیں۔


 ٢٣۔  ہر صاحب مسلک اپنے مسلک کو تو چاہتا ہے مگر اپنی کاروباری دُوکان کو اپنے مسلک کا نام نہیں دیتا اس خوف سے کہ اس کا کاروبار ٹھب نہ ہوجاٸے۔ مگر مسجدوں اور محفلوں میں ان کا بہت زور ہے، انھیں بھاٸی چارگی اور امن و امان کی فکر ہی نہیں۔


٢٤۔   بچوں کو اکثر یہ شکایت ہوتی ہے کہ ماں کو کچھ سمجھتا ہی نہیں ! ارے نادان ! جب تو دودھ پیتا بچہ تھا اور ہونٹ ہلاتا تھا تو ماں سمجھ جاتی تھی تجھے بھوک لگی ہے۔






٢٥۔   ہم مسلمان ماضی کے حسین یادوں میں گم ہیں:ہم نے تاج محل بنایا، ہم نے لال قلعہ بنوایا مگر ہمارے پاس مستقبل کی کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے۔ ہمارے پاس ایک جوتے کی کمپنی نہیں ہے۔


٢٦۔   بچوں کو تعلیم کے ایام میں یہ ہر گز نہ کہو کہ گریجویٹ کرونگے تو اچھی نوکری ملے گی اگر ایسا ماحول پیدا کرونگے تو سماج میں سب نوکر پیدا ہونگے۔انھیں نوکری دینے والا بناٶ یعنی بزنس مین بناٶ۔ نوکری کرنے والا نہیں۔


٢٧۔   ہمارا سماج دین کی جکڑ میں نہیں مسلک کی جکڑ میں زیادہ ہے۔  ہم ہمارے کاروبار کو مسلک کا نام نہیں دیتے کیونکہ مسلک کا نام دینے سے کاروبار درہم برہم ہوجاٸے گا،خسارہ ہی خسارہ ہوگا۔ مگر ہمیں ہوش نہیں کہ ہم مسلک کی وجہ سے زوال پزیر ہو رہے ہیں۔ ہمارا معاشرہ تباہی کی سمت گامزن ہے۔ مسلک پر بحث کرنے والے فجر کی نماز سے غافل ہے۔ اگر آپ سے کوٸی کسی دن مسلک کے تعلق سے کوٸی سوال پوچھے تو ان سے پہلے پوچھو کہ ” کیا آپ نے فجر کی نماز ادا کی ہے؟ “ اگر وہ ہاں میں جواب دیتا ہے تو گفتگو کا سلسلہ جاری رکھیے۔


 اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہے

اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا


٢٨۔   ہم نے خاک ترقی کی ہے

ہمارا کّوا ابھی تک پیاسا ہے

کتا لالچی ہے

اتفاق میں برکت ابھی تک 

نہیں ہوئی ۔

اور ابھی تک انگور کھٹے ہیں











 فی الوقت یہودی دنیا کے 15ٹاپ کمپنیز کے اعلی ترین عہدے پر فاٸز ہیں جیسے ایمیزون ایپل ،  اور گوگل  وغیرہ  ; ہم اس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ موباٸل میں ایک کلک پر جو چاہیے وہ ہم دیکھ سکتے ہیں تو یہودی قوم ہم پر ہنستی اور کہتی ہے کہ نہیں بالکل نہیں صرف ہم جو دکھاتے ہیں وہی دُنیا دیکھ سکتی ہے۔دنیا کے پاس کوٸی چواٸس نہیں ہے چواٸس ان یہودیوں کے پاس ہیں جو اپنی لگن اور محنت سے اعلی عہدوں پر فاٸز ہیں۔ اگر ہمیں ایک حدیث ڈھونڈنا ہو تو گوگل پر سرچ کرنا پڑتا ہے یعنی ہمارا دینی اثاثہ بھی گویا یہودیوں کے قبضہ میں ہے۔


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی 

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

بزم ابر سنبھل مشاعرہ

  بزمِ ابر سنبھل کے زیرِ اہتمام خوب صورت  مشاعرہ ! میرا روڈ : (رپورٹ : محمد حسین ساحل) میرا روڈ سیکٹر 4 پر واقع راشٹرا وادی کانگریس پارٹی کے...