HUSAIN SAHIL / DIVKER

HUSAIN SAHIL   /  DIVKER
BE GOOD ! DO GOOD !!

Friday, January 13, 2023

لڑکیوں کے نکاح سے والدین لا پرواہ کیوں ؟

محمد حسین ساحل

ممبٸی


 لڑکیوں کے نکاح سے والدین لا پرواہ  کیوں ؟





ایجاب و قبول‘‘کے مخصوص الفاظ کے ذریعہ مرد وعورت کے درمیان ایک خاص قسم کا دائمی تعلق اور رشتہ قائم کرنا نکاح کہلاتا ہے، جو دو گواہوں کی موجودگی میں ایجاب وقبول کے صرف دو لفظوں کی ادائیگی سے منعقد ہوجاتا ہے۔


نکاح انسانی زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ مرد ہو یا عورت زندگی ادھوری رہتی ہے۔ جب تک کہ وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں۔ یہ بڑا پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیداکیا اور اُن ہی سے اُن کا جوڑا حضرت حوا کو بنایا۔ اس طرح شوہر اور بیوی کا یہ پہلا انسانی رشتہ وجود میں آیا۔ باقی سارے رشتے ماں باپ، بیٹابیٹی، بھائی بہن و دیگر رشتے داریاں بعد میں وجود میں آئی ہیں۔


اسلامی یا شرعی نقطہ نظر  سے نکاح آسان ہے مگر ہماری سوچ و فکر نے نکاح سے قبل کی تمام تر مراحل کو پیچیدہ بنا رکھا ہے۔




نکاح کا اوّلین مقصد ایک ایک مرد اور عورت کے اخلاق کی حفاظت اور پورے معاشرے کو بگاڑ و فساد سے بچانا ہے۔


اسلام میں نکاح سے متعلق ہر بات جب واضح کردی ہے اس کے باوجود ہماری لڑکیاں بے راہ روی  کا شکار  کیوں ہیں۔


سرکاری میریج رجسٹرڈ دفتر میں اگر ہم جاتے ہیں تو ان گنت مسلم لڑکیاں غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرنے کے لٸے اپنا نام رجسٹر کر رہی ہیں، جس کی ان کے ماں باپ کو خبر تک نہیں : جس کی بیشمار وجوہات ہیں :





١۔  ماں باپ اپنی ٢٠ سالہ لڑکی کو چھوٹی سمجھتی ہے کہ ابھی میری لاڈلی چھوٹی ہے، ابھی اس کی عمر ہی کیا ہے ، ابھی کھیل کود کی عمر ہے، ابھی پڑھاٸی کرنا ہے۔ابھی تک تو ہماری شادی کی تیاری نہیں ہے۔ ابھی جہیز جمع کرنا باقی ہے وغیرہ وغیرہ


٢۔  کسی لڑکی کو رشتے کا پیغام آجاٸے تو لڑکی کے ماں باپ  لڑکے والوں کو سوال کرتے ہیں :لڑکا کیا کرتا ہے ؟لڑکے والے جواب دیتے ہیں وہ نوکری کرتا ہے تو فوراً  جواب ملتا ہے ہم کو نوکری والے کو نہیں دینا۔ 


٣۔ ایک لڑکی کو رشتہ آیا ،لڑکے والوں سے لڑکی والوں نے پوچھا لڑکا کیا کرتا ہے بولے اس کا ایکسپورٹ کا کاروبا ہے، خلیجی ممالک میں باسمتی چاول سپلاٸی کرتا ہے ، پنج وقتہ نمازی ہے۔لڑکی والے نے دوسرا سوال پوچھا اس کا مسلک کیا ہے؟ لڑکے والے نے جواب دیا اہل حدیث ہے۔نہیں نہیں اہلحدیث کو ہم لڑکی نہیں دیں گے۔۔ہم ٹناٹن سنی ہیں۔ سوچو ! کتنی  دشواریوں سے گزرنا پڑتا ہے کسی دوشیزہ کی زندگی کو۔


اگر بارہ تیرہ سال میں بچے بچیاں بالغ ہورہے ہیں اور 25، 30 سال تک نکاح نہیں ہورہا تو یہ جنسی مریض بھی بنیں گے اور گناہ بھی کریں گے ۔


 وقت پہ نکاح اولاد کا حق ہے۔ اس میں تاخیر والدین کو گناہ گار کرتی ہے۔


ہر غیر شادی شدہ جوان لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کی طلب رکھتے ہیں اور یہ ایک فطری ضرورت ہے لہذا اپنے بالغ بچے بچیوں کے نکاح کا بندوبست کریں۔۔


بھوک پیاس کے بعد بالغ انسان کی تیسری اہم ضرورت جنسی تسکین ہے اور جب جائز ذریعہ نہ ہو تو بچہ / بچی گناہ اور ذہنی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔


بدقسمتی کی انتہاہ، اسکول، یونیورسٹیز میں بڑی بڑی لڑکیاں لڑکے بغیر نکاح کے تعلیم حاصل کر رہے ہیں ، کالج کینٹین میں بیٹھ کر ناشتہ نوش کرتے وقت ہنسی مذاق اور فحش باتیں کرتے ہیں ۔ والدین کو نکاح کی پرواہ ہی نہیں۔ والدین کو اس بات کی خبر بھی نہیں کہ کالج کا وقت کب سے کب تک ہے اور بچی اتنی تاخیر سے گھر کیوں آتی ہے۔


انسان کی جنسی ضرورت کا واحد اور باعزت حل نکاح ہے اوراگر نکاح نہیں تو زنا عام ہوگا ۔


 اپنی بچیوں کے سروں پہ دوپٹہ ڈالنے کا مقصد تب پورا ہوگا جب ان کا نکاح وقت پہ ہوگا۔( ماٶں نے بھی اب سروں پر آنچل لینا بند کیا پھر ہم لڑکیوں سے صحیح راہ پر چلنے کی اُمید کیسے کرسکتے ہیں)

گھر میں دینی تعلیم کا ماحول ہی نہیں ہے۔ گھر کے افراد الحمد اور التحیات سے بھی لاعلم ہیں۔ رکوع اور سجدے میں کونسی تسبیح پڑھنا ہے اس کا بھی علم نہیں ہے۔

بیٹی کے رشتہ کے لٸے وظیفہ



اللہ تعالی نے معاشرتی اعمال میں سے نکاح کو سب سے آسان رکھا ہے۔


نکاح انسانوں کا طریقہ ہے۔ جانور بغیر نکاح کے رہتے ہیں اور رہ سکتے ہیں۔


والدین اپنی اولاد پہ رحم کریں اور وقت پہ نکاح کا بندوبست کریں۔




بزم ابر سنبھل مشاعرہ

  بزمِ ابر سنبھل کے زیرِ اہتمام خوب صورت  مشاعرہ ! میرا روڈ : (رپورٹ : محمد حسین ساحل) میرا روڈ سیکٹر 4 پر واقع راشٹرا وادی کانگریس پارٹی کے...