شبیر احمد شاد
اشعار سے دل پر نقش بنانے والا شاعر
شبیر احمد شاد
شبیر احمد شاد کا شمار ان شعراء کرام میں ہوتا ہے ،جو اپنی حقیقت کو خود پہچانتے تھے ۔ حالات کی نبض پر اپنی انگلی اور نظر رکھنے والا شاعر شبیر احمد شاد جب کوٸی شعر لکھتا ہیں تو قاری عش عش کرتے ہوٸے شعر گنگنانے لگتا ہے۔
شبیر احمد شاد کے اشعار کا جادو سر چڑھ کر بولتاہے اور ایسا لگتا ہے انھوں نے زندگی کو قریب سے نہیں دیکھا ہے بلکہ زندگی نے انھیں قریب سے دیکھا ہے۔ان کے اشعار حالات کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ حالات سے روشناس کراتے ہیں۔
شبیر احمد شاد کا اُردو ادب کے اچھے شعرا میں شمار ہوتا ہے وہ غزل کے شہزادے کہلاتے جاتے ہیں (شہنشاہ کوٸی اور ہے ) ۔ غزل کی دنیا میں شبیر احمد شاد کا اپنا الگ رنگ ہے اپنا الگ رکھ رکھاٶ ہے۔ ان کے بعد آنے والے بیشتر شعرا شبیر احمد شاد کی پیروی کو ہی اپنی شاعری کی عظمت سمجھیں گے۔
مہیا اب بھی تہزیب کے اسباب کرتے ہیں
کٸی بچے ہیں جو آج بھی ہمیں آداب کرتے ہیں
دکھاٸی دیتے ہیں مظلوموں کی پلکوں پہ جو اکثر
یہی قطرے ہیں جو پیدا بڑے سیلاب کرتے ہیں
درحقیقت اُن کی شاعری درد و غم کی ترجمان بھی ہے مگر یہ میر کی طرح چیخ چیخ کر اظہار نہیں کرتا یہی فرق ہے میر اور شبیر احمد شاد کی شاعری میں کہ میر اپنی شاعری رنج و الم میں ڈوبوں دیتے تھے اور شبیر احمد شاد اپنی شاعری میں درد کو بھی نشاط اور سرور کی چاشنی میں ڈبو دیتے ہیں یہ وصف دیگر شعرا میں خال خال ہی نظر آتا ہے۔ جیسے درج ذیل اشعار :
اس میں جو منور ہے وہ چمک نرالی ہے
زندگی کے آنچل کی ہر دھنک نرالی ہے
یوں تو دل کے زخموں سے ٹیس اُٹھتی ہے لیکن
تم نے جو عطا کی ہے وہ کسک نرالی ہے
بے حجاب جلوٶں میں ہے کہاں وہ رعناٸی
میں نے جس کو دیکھا ہے وہ جھلک نرالی ہے
شبیر احمد شاد کو حالات نے کبھی ناکام نہیں کیا بلکہ تمام حالات میں وہ اپنا کام کرگٸے۔
شبیر احمد شاد کے ذہن میں عشق کا مفہوم بہت وسیع ہے۔یہ جذبہ ان کےرگ و پے میں موجود ہے:
سُرور اُترا نہیں ہے تمہارے جلوٶں کا
ہماری صبح ہے شب کے خمار میں اب بھی
نہیں ہے خوف کوٸی موسمِ خزاں کا مجھے
میں چونک پڑتا ہوں فصلِ بہار میں اب بھی
مستقبل میں ناقدین بھی اس بات پر متفق نظر آٸیں گے کہ شبیر احمد شاد کا مفہوم عشق بہت وسیع ہے اور یہی جذبہ غم و الم کو ایک فاصلہ پر کھڑا رہنے پر مجبور کرتا ہے، اپنے پاس سے گزرنے بھی نہیں دیتا۔
جیسے :
وہ زلف کیا بکھر گٸی رداٸے شب مہک اُٹھی
وہ چشم وا ہوٸی کہ سارا میکدہ سنور گیا۔
شبیر احمد شاد بڑے سخن فہم ،خود فکر اور خود شناس انسان ہیں ۔اسی لئے اپنی حیثیت اور مقام کو واضح انداز میں پہچانتےہیں اور بر ملا کئی مقامات پر اُن کے عظیم ہونے کا عکس نظر آتا ہے۔
جیسے :
ہمارے گھر سے باہر بے ارادہ کب قدم نکلے
سفر کرنا ضروری ہو گیا تھا تب ہی ہم نکلے
وطن پر جان دینے کا دعویٰ سب ہی کرتے ہیں
مگر جب وقت آیا جان دینے کا تو ہم نکلے
اگر کوئی بھیونڈی کی تاریخ پڑھنا چاہے یا اہلیان بھیونڈی کو ادب کے نقطہ نظر سے سمجھنا چاہے تو وہ شبیر احمد شاد کی متفرق کتابوں کامطالعہ ضرور کریں گے۔ بالخصوص ” یاد رفتگاں “جس میں ایسے شعرا کا تذکرہ ہے جو داغ مفارقت دے گٸے ہیں۔
شبیر احمد شاد کی تشبیہات اور استعارات :
تشبیہ اور استعارات تقریباََ ہر شعر کا جوہرِ خاص ہوتے ہیں۔ لیکن شبیر احمد شاد نے تشبیہ اور استعارات ایسبے معیاری انداز میں اختیار کیے ، کہ وہ زبانِ زد عام ہو جاٸیں گےاور یقیناََ یہ کہنا درست ہوگا کہ شبیر احمد شاد کا کلام شاعری کے تمام تقاضوں سے مالا مال ہے۔
شبیر احمد شاد تشبیہوں اور استعاروں کے ذریعے بعض کیفیات کی اپنے اشعار میں ایسی خوبصورت تصویر کشی کرتے ہیں جیسے کسی مصور نے بارش بھیگتی اور اٹھلاتی ہوٸی دوشیزہ کی تصویر بناٸی ہو :
بام پر آٶ کہ دیدار تمہارا کرلیں
کچھ بلند اپنے مقدر کا ستارہ کرلیں
بس ذرا دل کو دھڑکنے کا سلیقہ آجاٸے
اتنی دیر آپ مرا ساتھ گوارہ کرلیں
رقص وحشت ہے ہر اک سمت سکوں ہے نہ قرار
بزم عالم کی فضا کیسے گوارہ کرلیں
حادثات زمانہ اور گردش دوراں نے شبیر احمد شاد کے دل میں گوشہ نشینی کے تصور کا دُور دُور تک پتہ نہیں ملتا۔ وہ خوش رہتے ہیں اور خوشی کے لہجہ میں اپنوں سے بھی بات کرتے ہیں اور غیروں سے بھی۔ اپنے دولت کدہ پر ہی بزم احباب بھی سجاتے ہیں ۔
اشعار ملاحظہ ہوں:
تصورات کی دنیا سے پیار کرتے تھے
اسی آئینے میں ہی دیدار یار کرتے ہیں
اسی سے اپنی لڑائی بھی ہوتی رہتی ہے
کسی سے پیار بھی دیوانہ وار کرتے ہیں
انسان دوستی اور احترام آدمیت:
شبیر احمد شاد نے انسانی عظمت اور اعلیٰ انسانی اقدار کی قدر و قیمت کو بھی اپنی شاعری میں بیان کیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں جگہ جگہ یہ رنگ جھلکتا ہے :
محبتوں کے ستوں پر خلوص کی چھت ہے
ہمارے گھر کی فضا کتنی خوبصورت ہے
کسی کا ہجر بسا ہے میری نگاہوں میں
میں جانتا ہوں کہ یہ شام خوبصورت ہے
اس دور کی شاعری کہ نئی نظم ،نئی غزل یا جدید غزل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ایسی شاعری میں شاعر کی انفرادیت ،اس کا مزاج نیز اس کے تجربات و محسوسات کو نمایاں طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔نیا شاعر کسی ازم کا پابند نہیں ہوتا ۔وہ اپنے عقل وشعور اور اپنے داخلی احساس کو ہی اپنا آئیڈیل قرار دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ نئے شعراء کو اکثر ترسیل کی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے۔لیکن جن شعراء نے محنت، لگن اور خلوص سے کام لیا ان کے فن میں پختگی ہے۔اس فن میں زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے۔انھیں مخلص فنکاروں میں شبیر احمد شاد کا نام بھی پیش پیش ہے:
ہر ایک ذرّے پہ وہ جاں نثار کرتا ہے
اپنے دیس کی مٹی سے پیار کرتا ہے
شعور کو تو جھلسنے کا خوف ہوتا ہے
جنون آگ کے دریا کو پار کرتا ہے
تمام جدید شعراء کی طرح شبیر احمد شاد نے بھی اظہارِ ذات کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے سماجی مسائل، تنہائی، بے چارگی، شکستہ خوردگی، ناکامی، نااُمیدی، زندگی کی تلخیاں ، بے حسی، عدم تحفظ وغیرہ کوبھی موضوع بنایا ہے۔مگر فن پر مضبوط گرفت ہونے کی وجہ سے وہ ترسیل کی ناکامی سے بچ گئے ہیں ۔ان کے کلام میں بڑی تہہ داری پائی جاتی ہے۔جہاں ان کا لہجہ طنزیہ ہو گیا ہے وہاں تلخی بھی پیدا ہو گئی ہے۔ لیکن وہ اپنے دھیمے لہجے سے اس تلخی کو قابل قبول بنا دیتے ہیں۔
رستے کی مشکلوں کے حوالے نہیں گئے
اب تک ہمارے پاؤں سے چھالے نہیں گئے
نکلے ہیں آج ضبط کے دامن کو چیر کر
وہ غم جو چشم نم سے سنبھالے نہیں گے
شوقِ شاعری میں ذوق مطالعہ اور ذوق مشاہدہ ضروری ہے اور عظیم فن پاروں کا مطالعہ، قواعد و ضوابط اور نفسیات سے لگاو ذوق شاعری کو ایک نیا حسن عطا کرتا ہے:
وفا کی محفل سجائے رکھنا بس اتنا کرنا
مزاج اپنا بنائے رکھنا بس اتنا کرنا
اس میں شک نہیں کہ نثر اور شعری زبان میں الفاظ ایک ہی ہوتے ہیں۔ لیکن الفاظ کی ترتیب انہیں مختلف بناتی ہے۔ یہ فرق وزن کے خیال سے پیدا ہوتا ہے یعنی جو چیز شاعری اور نثر کو الگ کرتی ہے وہ وزن ہے شاعر کے دل سے اُٹھنے والی جذبات و احساسات کے طوفان کو وزن کا استعمال متوازن بناتا ہے۔نثر میں الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کئے جاتے ہیں اور شاعری میں بہترین الفاظ بہترین ترتیب میں پیش کیے جاتے ہیں یا یوں کہیے کہ سجاٸے جاتے ہیں :
جس دن سے نظر آپ پہ قربان ہوٸی ہے
وہ جن سے مری درد سے پہچان ہوٸی ہے۔
چہرے پہ اپنی درد سجائے ہوٸے ہو تم
صورت تمہاری میر کا دیوان ہوٸی ہے
شاعری در حقیقت فطری،الہامی اور وجدانی کیفیت کا نام ہے لیکن وہیں اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس الہام اور وجدان کو تخلیقی پیکر عطا کرنے اورشعر میں ڈھالنے کے لئے علمی لیاقت، فنی مہارت اور مستقل مشق سخن کے ساتھ ہی کسی استاد کی سر پرستی و رہنمائی بھی اکثر نا گزیر ہوتی ہے تاکہ اس کی تخلیقی رو کو صحیح سمت و رفتار مل سکے۔ بقول شاعر :
دیکھو کس شاعر نے اپنے دل کے چھالے پھوڑے ہیں
غزل کے پیراہن پر کتنی دلکش یہ گل کاری ہے
” لفظوں کےتانے بانے“، ”لمس خیال“ اور نعت و منقبت ”صدائے دل“ منظر عام پر آچکیں ہیں۔
شبیر احمد شاد کے وہ اشعار جو مجھے بھی پسند ہیں اور آپ کو بھی پسند آٸے گے اور دیکھنا یہی اشعار انھیں زندہ بھی رکھیں گے۔
چیخنے والوں کی آواز کہاں جاتی ہے
کتنا سناٹا نظر آتا ہے کہرام کے بعد
ہماری دشواریوں میں اتنی آسانی نہیں ہوتی
تیرے رحم و کرم کی گر فراوانی نہیں ہوتی
آواز انا لحق کی سنائی نہیں دیتی
ہیں دار ورسن آج بھی، منصور نہیں ہے
ہماری راہ میں دیوار اُٹھا کے دُنیا نے
قدم قدم پہ بڑھایا ہے حوصلہ دل کا
ضرورت کسی بھی خواب کی تعبیر سے پہلے
بنالوں ذہن میں نقشہ کوئی تعمیر سے پہلے
” یادِ رفتگاں “ تو قاری کی آنکھوں کا اعتبار چاہتی ہے، وہ ریاضت مانگتی ہے جس سے کتاب کی ایک ایک سطر ذہن میں روشن ہو جائے اور روشنی کا یہ سلسلہ پھیلتا جائے۔ شبیر احمد شاد نے ہمارے ذہنوں میں ایک عہد کی تاریخ، تہذیب اور طرزِ فکر کو روشن کیا ہے۔ اگر ایسا نہ کرتے تو اجتماعی ذہن کا ایک بڑا حصہ تاریکیوں کی نذر ہو جاتا یا تعصب زدہ تنقید کی وادی میں بھٹکتا ہوا نظر آتا۔
” یادِ رفتگاں “ شبیر احمد شاد کا تاریخ ساز کارنامہ ہے۔شبیر احمد شاد ایک ایسی شخصیت ہے جن کا خلوص ایک محور ہے جس کے گرد ان کے چاہنے والے اور چاہنے والوں کے گرد شبیر احمد شاد گھومتے نظر آتے ہیں۔ اس کتاب کا لفظ لفظ میری نظر سے گزرا ہے ،مجھے پڑھنے کے بعد لگا کہ شبیر احمد شاد نے بھیونڈی کے شعرا کا تذکرہ نہیں کیا ہے بلکہ تاریخ مرتب کرلی ہے۔ مستقبل میں جب بھی ان شعرا کا ذکر کیا جاٸے گا تو یقیناً ” یادِ رفتگاں “ کاحوالہ دیا جاٸے گا۔
مذکورہ بالا کتاب میں محسن اُمیدی ، شبیر احمد راہی ، محمد یونس کانپوری ، رحمت الہ آبادی ، ساز الہ آبادی ، راشد الہ آبادی ، ریاض اعظمی و دیگر شعرا و شخصیات کا نہایت ہی خوش اسلوبی سےتذکرہ کرکے نہ صرف اپنی دوستی کا حق ادا کیا ہے بلکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قاری کے ذہنوں میں ان معتبرشخصیات کو گویا دوبارہ زندہ کیا ہو۔
یقیناً یہ شبیر احمد شاد کی محبت اور خلوص ہے کہ انھوں نے ان منتشر شعرا کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا کام کیا ہے۔
موت کے بعد کی زندگی بہت اہم ہوتی ہے کیونکہ ان میں ایک نئی قوت و توانائی آجاتی ہے۔ شبیر احمد شاد نے اس کتاب کے ذریعہ موت کی کیفیت سے ہمکنار بہت سے تخلیق کاروں کو نئی زندگی عطا کی ہے۔ یہ کام اتنا اہم ہے کہ شبیر احمد شاد کے جنوں کے آگے سارے ستائشی الفاظ ہیچ نظر آتے ہیں اور یہ کتاب ستائش یا تحسین کے لیے ہے بھی نہیں کہ شبیر احمد شاد اس منزل سے بہت آگے بڑھ چکے ہیں۔
شبیر احمد شاد سے ایک مودبانہ گزارش کے زندہ قلمکاروں پر بھی اپنے قلم کو جنبش دے اور اُن کی زندگی میں ہی اُن کا حق ادا کریں۔
ہماری قدر کرو بوریا نشیں ہیں ہم
ہمیں سلام سبھی تاجدار کرتے ہیں
OO