HUSAIN SAHIL / DIVKER

HUSAIN SAHIL   /  DIVKER
BE GOOD ! DO GOOD !!

Wednesday, November 30, 2022

ALI SARDAR JAFARI

پروفیسر کلانیہ کے ہاتھوں رفیعہ شبنم عابدی کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ 

خلافت ہاوس عرفان برڈی توصیفی کمیٹی اور آئیڈیا کا بے حد کامیاب پروگرام 

Monday, November 28, 2022

MAULANA RUMI



 مولانا رومی


مولانا رومی جس انداز سے لوگوں کو مثالوں سے سمجھاتے تھے، 

واہ مولانا رومی کاش آپ کا دور آپ کا زمانہ ملتا 


کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تھا :


ايک شخص کی طبیعت ناساز ہوئی تو  طبیب کے پاس گیا

اور کہا کہ  مجھے دوائی بنا کے دو طبیب نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں درکار ہیں سب ہیں سواء شہد کے تم اگر شہد کہیں سے لا دو تو میں دوائی تیار کیے دیتا ہوں اتفاق سے موسم شہد کا نہیں تھا ۔۔

اس شخص نے حکیم سے ایک ڈبا لیا  اور چلا گیا لوگوں کے دروازے  کھٹکھٹانے لگا 

 مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی

جب مسئلہ حل نہ ہوا  تو وہ محمود غزنوی کے دربار میں حاضر ہوا 

کہتے ہیں وہاں ایاز نے دروازہ  کھولا اور دستک دینے والے کی رواداد سنی اس نے وہ چھوٹی سی ڈبیا دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے کہا آپ تشریف رکھیے میں  بادشاہ سے پوچھ کے بتاتا ہوں ۔۔

ایاز وہ ڈبیا لے کر  بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت ایک سائل کو شہد کی ضرورت ہے ۔۔

بادشاہ نے وہ ڈبیا لی  اور سائیڈ میں رکھ دی ایاز کو کہا کہ تین بڑے ڈبے شہد کے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں 

ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے 

آپ  تین ڈبے  کیوں دے رہے ہیں ۔۔

بادشاہ نے ایاز   سے کہا ایاز 

وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے 

ہم بادشاہ ہیں  ہم اپنی حیثیت کے مطابق دینگے ۔

مولانا رومی فرماتے ہیں ۔۔

آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ


مانگیں تو صحیح ......❣


درویشوں کے علاوہ دنیا کے باقی لوگ بچوں کے مانند ہے جو دنیا کے کھیل میں مگن ہیں
.
.یاد رکھیں مقدس اور پاک مقام میں داخل ہونے کا راستہ آپکے اندر ہے
.
دانائی کا تعلق بالوں کی سفیدی سے نہیں، عقل اور تجربے سے ہے
 .دل سیاہ ہو تو داڑھی کے سفید بالوں کی کیا وقعت

.
.اگر میرا علم مجھے انسان سے محبت کرنا نہیں سکھاتا تو ایک جاہل مجھ سے ہزار درجہ بہتر ہے



.
.خدا تک پہنچنے کے بہت سے راستے ہیں لیکن میں نے خدا کا پسندیدہ ترین راستہ مخلوق سے محبت کو چُن
_______________________________________



Poetry/Kalam of Maulana Rumi in Urdu

مولانا رومی غزلیں

1. بن میرے

اک سفر پر میں رہا، بن میرے

اس جگہ دل کھل گیا، بن میرے


وو چاند جو مجھ سے چھپ گیا پورا

رخ پر رخ رکھ کر میرے، بن میرے


جو غمے یار میں دے دی جان میننے

ہو گیا پیدا وو غم میرا، بن میرے


مستی میں آیا ہمیشہ بغیر می کے

خوش حالی میں آیا ہمیشہ، بن میرے


مجھ کو مت کر یاد ہرغج

یاد رکھتا ہوں میں خود کو، بن میرے


میرے بغیر خوش ہوں میں، کہتا ہوں

کہ ای میں رہو ہمیشہ بن میرے


راستے سب تھے بند میرے آگے

دے دی ایک کھلی راہ بن میرے


میرے ساتھ دل بندہ کیکوباد کا

وو کیکوباد بھی ہے بندہ بن میرے


مست شمسے تبریز کے جام سے ہوا

جامے می اسکا رہتا نہیں بن میرے

2. ہنگامے رات کے

ہم آ گئے چونکہ ہنگامے میں رات کے

لے آیے کیا-کیا دریا سے رات کے


رات کے پردے میں ہے وو چھپا ہوا گواہ

دن بھلا برابر میں ہے کب رات کے


سونا چاہیگا نہیں، نیند سے کرے گریز

جو کہ دیکھے نہیں اسنے تماشے رات کے


جان بہت پاک اور بس پرنور دل

بندھا رہا، لگا رہا، بندگی میں رات کے


رات تیرے آگے ہے جیسے کالی پتیلی

کیونکِ چکھے نہیں تونے حلوے رات کے


لمبی یہ راہ ہے رفتار دے میرے یار

لمبائییاں ہیں اور چوڑائیاں ہیں رات کے


ہاتھ میرے بند ہیں سب کام-کاج سے

صبح تلک ہاتھ میرے حوالے رات کے


پیشاوری کاروبار ہے اگر دن کا

لطفَ الگ ہیں بیوپار کے رات کے


مجھے فخر اپنے شمسدین تبریزی پر

ہسرتیں دن کی تو تمنا رات کے

3. میکدے میں آج

نشے سے بیٹھے ہیں رندو جیسے میکدے میں آج

زحد ن کرینگے اور ن نماز پڈھینگے آج


کیا بولوں کیا مہفل کیا می ہے آج

کیا ساقی، کیا میہربانی، کیا لطفَ آج


نہ ہجر کا کوئی نشان ہے، نہ بو ہے

دلدار سے میل اور وصال ہے آج


آج ملتے تحفے اور چمے ساقی سے

پیالے ہیں، مستییاں ہیں، اور شرابیں ہیں آج


آج مستی میں جانوں نہ صبح سے شام

گزر رہے ہیں زمانے لمھوں کی ترہ آج


جل پڑے ہیں آز فتنے میں لگ کر سبھی

اس آنگن کی مجلس میں ہای و ہو ہے آج


خود سے نکل کر پوجتے ہیں سبھی شراب کو

ساقی کے دیکھے بن ہم پر ہوتی نہیں کرامات


شمسدین تبریزی نے کی ن کوئی خرافات

توحید کی می ڈھال سب یاروں کو دی آواز

4. ہمارے سرساز

چاہے توڑ دو ہمارے ساز اے ملا

ساز ہمارے پاس ہزاروں اور بھی ہیں


عشقَ کے پنجوں میں ہم گر گئے جو

کیا فکر جو باجے-بنسی کم ہئے ہیں


سارے جہاں کے ساز جو جل بھی جائیں

بہت سرساز تو بھی چھپ کر کھڑے ہیں


ترنگ اور تان انکی گئی آسماں تک

مگر ان بہرے کانوں میں کچھ آتا نہیں ہے


دنیا کے چراغ و شمع سب بجھ بھی جائیں

تو غم کیا، چکمک جہاں میں کم نہیں ہے


یہ نغمہ تو ایک تنکا دریا کے اوپر

گوہر دریا کی سطح پر آتا نہیں ہے


پر حسن اس تنکے کا جانو گوہر سے

اس چوندھ کی عکس کی عکس ہم پر گری ہے


یہ نغمیں سارے وصل کے شوق کی ہیں شاخیں

اور مول اور شاخ کبھی برابر نہیں ہیں


تو بند کر یہ منہ اور در کھولھ دل کا

اس راہ سے باتیں روحوں سے پھر کیا کر

5. مول کے مول میں آ

کب تلک الٹا چلیگا، اب سیدھے آ

چھوڑ کفر کی راہ، اب چل دین کی راہ

اس ڈنک میں دیکھ دوا، اور ڈنک کھا

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


ہرچند ہے تو اس مٹی کا ہی بنا

سچ کے موتی کے دھاگوں سے اندر بنا

خدائی نور کا خزانچی تجھکو چنا

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


بے خودی سے جب تو خود کو باندھ لیگا

تو جان کہ خودی کی قید سے کھلیگا

اور ہزار بندھن توڑ تو اڑ چلیگا

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


خلیفہ کی پشت سے تو پیدا ہوا ہے

پسرے اس کھوٹے جہاں کو دیکھتا ہے

لعنت تو اتنے پر ہی خوش گھومتا ہے

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


ہرچند اس جہاں کا تعویز ہے تو

اندر چھپے خزانوں کی خان ہے تو

جھانک اپنی چھپی آنکھیں کھولھ کے تو

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


خدا کے جلال سے بھر کر تو پیدا ہوا ہے

ستارے اور سگن نیک بھی برپا ہوا ہے

وو ہے ہی نہیں جسے تو رو گا رہا ہے

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


سارے پتھر میں جڑا تو ہے ایک مانک

کریگا کب تک دھوکھا ہماری جانب

ہوا جا رہا آنکھوں سے سب ظاہر

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


سرکش یار کے پاس سے آیے ہو تم

پیکر مست پھر بھی نازک اور دلکش

آنکھوں میں خوش ہو اور دل میں آتش

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ


شمس تبریزی ہیں ہمارے شاہ اور ساقی

دے دیا ہمارے ہاتھوں میں جامے باقی

سبحان اﷲ خالص یہ شراب جا پی

اپنی خواہش کے مول کے مول میں آ

6. گلابی گال تیرے

گلابی گال تیرے جب دیکھ پاتے ہیں

ہوکے خوشگوار پتھروں میں راہ پاتے ہیں


اک بار گھونگھٹ ذرا پھر سے ہٹا دو

دنگ ہونے کا دیوانوں کو مزہ دو


تاکِ عالم سمجھی-بوجھی راہ بھولیں

ہشیاروں کی عقل کی ہل جائیں چولیں


پانی بن جای موتی، تمھارا عکس پڑنا

تاکِ آتش چھوڑ دے جلنا، جنگ کرنا


تمھارے حسن کے آگے چاند سے منہ موڑ لوں

جنت کی جھلملاتی روشنیاں چھوڑ دوں


تمھارے چہرے کے آگے ن بولوں-آئینہ ہے

یہ بوڑھا آسماں تو جنگ جیسے کھا گیا ہے


اس جہاں میں سانس تمنے پھونک دی ہے

اس بیچارے کو نئی ایک شکل دی ہے


اے اشنا ساز میں کچھ تان لاؤ

پینی آنکھوں کے لئے کچھ خواہش جگاؤ

7. سنے کون آلاپ میرے

پناہ میری یار میرے، شوق کی پھٹکار میرے،

مالکو مولٰی بھی ہو، اور ہو پہریدار میرے ۔


نوح تو ہی روح تو ہی، کرنگ تو ہی تیر تو ہی،

آس او امید تو ہے، گیان کے دوار میرے ۔


نور تو ہے سور تو، دولتے-منصور تو،

باجیکوہیتور تو، مار دئے خراش میرے ۔


قطرہ تو دریا تو، غنچہ-او-کھار تو،

شہد تو زہر تو، درد دئے ہزار میرے ۔


سورج کا گھربار تو، شکر کا آگار تو،

آس کا پرسار تو، پار لے چل یار میرے ۔


روز تو اور روزہ تو، منگتے کی خیرات تو،

گاگرا تو پانی تو، لب بھگو اس بار میرے ۔


دانا تو او جال تو، شراب تو او جام تو،

انگڑھ تو تییار تو، عیب دے سدھار میرے ۔


ن ہوتے بے خودی میں ہم، دل میں درد ہوتے کم،

راہ اپنی چل پڑے تم، سنے کون آلاپ میرے ۔

8. جادوگر

جادوگر تم انوکھے ہو نرالے ہو ۔

شکاری، شکار کو بنانے والے ہو ۔۔


دو دیکھنے کی عادت اپنی بہت پرانی ۔

جادو چلا تمھارا ہئی آنکھیں اینچی تانی ۔۔


پک گیے ہو پورے، شہتوت سے ہو میٹھے ۔

انگور کیا انگوری، تیرے لیے سب سیٹھے ۔۔


ممیاتے تھے جو اب تک جم کر غرض رہے ہیں ۔

کیسے موگرے کے تن سے گلاب جم رہے ہیں ۔۔


تن کے چلنے والے جاتے ہیں سر جھکایے ۔

خاموش رہنے والے اب ہیں آسماں اٹھایے ۔۔


جہالت مے قید تھے جو ہو گیے ہیں گیانی ۔

سنجیدہ ہو گیے ہیں جادو سے آسمانی ۔۔


جو تلوار سجاتے تھے کلھ جنگے-میدان میں ۔

اب لفظوں کے وار کرتے اور صرف قان میں ۔۔


جادو چلا ہے تیرا چینٹی کا وقت آیا ۔

خوف میں ہیں ہاتھی جو انکو سدا ستایا ۔۔


جادو ن سمجھو اسکو، ظلم سے ہے جنگ ۔

بدل رہے ہیں دیکھو، تقدیر کے وو ڈھنگ ۔۔


لفظوں میں مت الجھنا، تاکید ہے یہ انکی ۔

یاد رہے ہمیشہ، بس سنو زبان ہک کی ۔۔

مولانا رومی نظمیں

1. مرلی کا گیت

(مثنوی کی پہلی کتاب کی شروعات

اسی مرلی کے گیت سے ہوتی ہے)


سنو یہ مرلی کیسی کرتی ہے شکایت ۔

ہیں دور جو پی سے، انکی کرتی ہے ہکایت ۔۔


کاٹ کے لایے مجھے، جس روز ون سے ۔

سن روئے مردوزن، میرے سر کے غم سے ۔۔


کھوجتا ہوں ایک سینہ پھرکت سے زرد-زرد ۔

کر دوں بیان اس پر اپنی پیاس کا درد ۔۔


کر دیا جسکو وقت نے اپنوں سے دور ۔

کرے دعا ہر دم یہی، واپسی ہوی منظور ۔۔


میری فریاد کی تان ہر مجلس میں ہوتی ہے ۔

بدحالی مے ہوتی ہے اور خوش حالی میں ہوتی ہے ۔۔


بس اپنے من کی سنتا سمجھتا ہر کوئی ۔

کیا ہے چھپا میرے دل مے، جانتا نہیں کوئی ۔۔


راز میرا فریادوں سے میری، الغ تو نہی ۔

آنکھ سے، قان سے یہ کھلتا مگر جو نہیں ۔۔


تن سے جان اور جان سے تن چھپا نہیں ہے ۔

کسی نے بھی مغر جان کو دیکھا نہیں ہے ۔۔


ہوا ہے تان مے مرلی کی ؟ نہیں سب آگ ہے ۔

جسمیں نہیں یہ آگ، وو تو مرداباد ہے ۔۔


مرلی کے اندر آگ عاشق کی ہوتی ہے ۔

عاشق کی ہی تیزی می میں بھی ہوتی ہے ۔۔


ہو گئی مرلی اسی کی یار، پائی جسمیں پیر ۔

دے دیا انکو سہارا، کر میرا پردہ چیر ۔۔


مرلی سا زہر بھی دوا بھی، کسنے دیکھا ہے ۔

ہمدرد سچا مرلی جیسا کسنے دیکھا ہے ۔۔


کھوں سے بھری راہوں سے مرلی آغاز کرتی ہے ۔

روداد گاڑھے عشقَ کی مجنوں کی کہتی ہے ۔۔


ہوش سے انجان وو سب، جو بے ہوش نہیں ہے ۔

اس آواز کو جانے وو کیا، جسے قان نہیں ہے ۔۔


درد ایسا ملا جو ہے ہر وقت میرے ساتھ ۔

وقت ایسا ملا، ہر لمہہ تپش کے ساتھ ۔۔


بیتے جا رہے یہ دن یوں ہی، کوئی بات نہیں ۔

تو بنے رہنا یوں ہی، تجھ سا کوئی پاک نہیں ۔۔


جو مچھلی تھے نہیں، پانی سے سب تھک گیے ۔

لاچار تھے جو، دن انکے جیسے تھم گیے ۔۔


ن سمجھینگے جو کچے ہیں، پکنا کسکو کہتے ہیں ۔

نہیں یہ راز گودے کے، چھلکا اسکو کہتے ہیں ۔۔


تو ہو آزاد اے بچے، قیدوں سے دراروں کی ۔

رہوگے بند کب تک، چاندی میں دیواروں کی ۔۔


ساگر کو بھروگے گاگر میں، کتنا آئیگا ؟

عمر میں ایک دن جتنا بھی ن آئیگا ۔۔


بھرو لوبھ کا گاگر، کبھی بھر پاؤگے نہیں ۔

خود کو بھرتا موتیوں سے، سیپ پاؤگے نہیں ۔۔


کر دیا جسکا غریباں عشقَ نے ہو چاک ۔

لوبھ لالچ کی برائی سے، ہو گیا وو پاک ۔۔


ای عشقَ تو کھشباش ہو اور زندہ باد ہو ۔

ہماری سب بیماری کا بس تجھسے علاج ہو ۔۔


تو ہے دوا غمان کی اور ہے غرور کی ۔

تجھسے ہی کایم ہے لو، کھرد کے نور کی ۔۔


یہ خاک کا تن عرش تک، جاتا ہے عشقَ سے ۔

خاک کا پربت بھی جھومتا گاتا ہے عشقَ سے ۔۔


عاشقو اس عشقَ نے ہی جان دی کوہے طور میں ۔

تھا طور مستی میں، و تھی غشی موسیٰ ہزور میں ۔۔


لبے-سرخ کے یار سے غرچے مجھے چوما جاتا ۔

مجھسے بھی مرلی سا شیریں سر باہر آتا ۔۔


دور کوئی رہتا ہمزبانو سے جو ہو ۔

بس ہو گیا گونگا، سو زباں واقف وو ہو ۔۔


چونکہ گل اب ہے نہی ویراں بغیچا ہو گیا ۔

بعد گل کے، بند گانا بلبلوں کا ہو گیا ۔۔


معشوق ہی ہے سب کچھ، عاشق ہے بس پردہ ۔

معشوق ہی بس جی رہا ہے، عاشق تو ایک مردہ ۔۔


ایسا ن ہو عاشق تو عشقَ کا کیا حالَ ہو ۔

پرندہ وو اک جسکے گر گئے سب بال ہو ۔۔


ہوش میں کیسے رہوں میں، بڑی مشکل میں ہوں ۔

یار کو دیکھے بنا، ہر گھڑی مشکل میں ہوں ۔۔


ارمان ہے عشقَ کا، اس راز کو دنیا سے بولے ۔

ممکن ہو یہ کس ترہ، آئینہ جب سچ ن کھولے ۔۔


سچ بولتا آئینہ تیرا، سوچ کیوں نہیں ؟

چہرا اسکا زنگ سے، جو صاف ہے نہیں ۔۔

مولانا رومی اشیار

1. دشوار

ہزرتے عیسیٰ سے پوچھا کسی نے جو تھا ہشیار

اس ہستی میں چیز کیا ہے سبسے زیادا دشوار


بولے عیسیٰ سبسے دشوار غصہ خدا کا ہے پیارے

کہ جہنم بھی لرزتا ہے انکے ڈر کے مارے


پوچھا کہ خدا کے اس قہر سے جاں کیسے بچاییں ؟

وو بولے اپنے غصے سے اسی دم نجات پاییں

2. نایاب علم

سونے اور رپیے سے بھر جای جنگل اگر

بنا مرضی خدا کی لے نہیں سکتے کنکر


سو کتابیں تم پڑھو اگر کہیں رکے بنا

نقطہ نہ رہے یاد خدا کی مرضی کے بنا


اور گر خدمت کری، ن پڑھی ایک کتاب

گریباں کے اندر سے آ جاتے علم نایاب

3. لطیفہ

لطیفہ ایک تعلیم ہے، غور سے اس کو سنو

مت بنو اسکے مہرے، ظاہرہ میں مت بنو


سنجیدہ نہیں کچھ بھی، لطیفے باز کے لئے

ہر لطیفہ سیخ ہے ایک، آکلوں کے لئے


4. بدشکل

بدشکل نے خود کو آئینے کے سامنے کیا

غصے سے بھر گیا اور چہرا پلٹ لیا


بدگمان نے جب کسی کا کوئی جرم دیکھا

دوزخ کی آگ میں وو بھیتر سے جل اٹھا


اپنے غرور کو دین کی ہمایت بتاتا ہے

خودی کے کفر کو خود میں دیکھ نہیں پاتا ہے

5. طوبہ

جو عمر گزر گئی، جڑ اسکی ہے یہ دم

سینچو طوبہ سے اسے، گر رہی نہیں ہے نم


اس عمر کی جڑ کو دو آب-حیات ذرا

تاکِ وو درخت ہو جای پھر سے ہرا-بھرا


سب ماضی تیرا اس پانی سے سدھر جائیگا

زہر پرانا سب اس سے شکر ہو جائیگا

6. طوبہ

تن میرا اور رگ میری تم سے بھری ہئیں ہے

طوبہ کو رکھنے کی مجھ میں جگہ نہیں ہے


تو تی ہے کہ طوبہ کو دل سے نکال دوں

جنت کی زندگی سے بھی طوبہ کیسے کروں ؟

7. عشقَ

عشقَ ہرا دیتا ہے سب کو، میں ہارا ہوا ہوں

کھارے اشک سے شکر سا میٹھا ہوا ہوں


اے تیز ہوا ! میں سوکھا پتہ سامنے تیرے ہوں

جانتا نہیں کس طرف جا کر میں گروں

8. درد

درد پرانی دوا کو نیا بنا دیتا ہے

درد اداسی کی ہر شاخ کاٹ دیتا ہے


درد چیزوں کو نیا بنانے کا کیمیا ہے

ملال کیسے ہو اٹھ گیا درد جہاں ہے


ارے نہیں بے زار ہو کر مت بھر آہ سرد

کھوج درد، کھوج درد، درد، درد اور درد

9. روح کے راز

جب دیکھو کوئی اپنا کھولھ دو روح کے راز

دیکھو پھول تو گاؤ جیسے بلبل بااواز


لیکن جب دیکھو کوئی دھوکھے و مکاری بھرا

لب سی لو اور بنا لو اپنے کو بند گھڑا


وو پانی کا دشمن ہے بولو مت اسکے آگے

توڑ دیگا وو گھڑے کو جاہلی کا پتھر اٹھاکے

10. جنگ اور جلال

چونکہ نبیوں میں وو رسول رکھتے تھے تلوار

انکی امت میں ہیں جواں مرد اور جنگوار


جنگ اور جلال ہمارے دین کی نشانی ہے

پربت و گفا عیسائی دین میں پائی جانی ہے

11. دل

کہا پیغمبر نے ہک نے ہے فرمایا

ن کسی اونچے میں ن نیچے میں ہوں سمایا


عرش بھی نہیں، ن زمین و ن آسمان

سما سکتا ہے مجھے، پیارے یقین جان


مومن کے دل میں سما جاتا ہوں، ہے عجب

چاہو تو میری ان دلوں میں سے کر لو طلب

12. رہبر

رہبر کا سایہ خدا کے زکر سے بیہتر ہے

سینکڑوں کھانوں و پکوانوں سے صبر بیہتر ہے


دیکھنے والے کی آنکھ سو لاٹھیوں سے بیہتر ہے

آنکھ پہچان لیتی کیا موتی کیا پتھر ہے

13. ہو سے ہوا میں

شکلیں بیشکلی سے باہر آئیں، گئی اسی میں

کیونکِ 'سچ ہے ہم واپس لوٹتے اسی میں'


تو مر رہا ہر دم و واپس ہو رہا ہر دم

کہا مصطفیٰ نے بس ایک دم کا یہ عالم


ہماری سوچ ایک تیر ہے اس ہو سے ہوا میں

ہوا میں کب تک رہے ؟ لوٹ جاتا خدا میں

14. مخالف

خدا نے رنج و غم اس لئے ہیں بنائے

تاکِ خلاف اسکے خوشی نظر آئے


مخالفت سے ساری چیزیں ہوتی ہیں پیدا

کوئی نہیں مخالف اسکا وو ہے چھپا

15. مسجد

بےوقوف مسجد میں جاکر تو جھکتے ہیں

مگر دل والوں پر وو ستم کرتے ہیں


وو بس عمارت ہے اصلی ہکیکت یہیں ہے

سروروں کے دل کے سوا مسجد نہیں ہے


وو مسجد جو اؤلیا کے اندر میں ہے

سبھی کا سجداگاہ ہے، خدا اسی میں ہے

16. پہاڑ

پہاڑ کی گونج خود سے آگاہ نہیں ہے

پہاڑ کی اکل کو روح سے راہ نہیں ہے


بیکان و بے ہوش وو بس آواز کرتا ہے

جب تم چپ ہو گئے، وو بھی چپ کرتا ہے

17. ایک

وو بیمکان، خدا کا نور جسکے اندر ہے

اسکو ماضی، مستقبل و حالَ کدھر ہے ؟


تیرے رشتے سے ہے ماضی اور مستقبل وو

ایک چیز ہے دونوں، تو سمجھتا ہے کہ دو


18. خدا

جو کچھ بھی تم سوچتے ہو، فنا ہے مانو

وو جو تمھاری سوچ میں نہیں، اسے خدا جانو

19. یار

یار راستے میں سہای اور سہارا ہے

غور سے دیکھو یار راستا تمھارا ہے

20. پستی

خوش رہ غم سے کہ غم پھندا ہے دیدار کا

پستی کی طرف ترقی، ڈھنگ ہے اس راہ کا

21. بت

تمھاری خودی کا بت، سارے بتوں کی ہے جڑ

وو تو بس سانپ، اس میں اجگر کی جکڑ

22. صوفی

اے دوست صوفی کا ہے اس وقت میں رہنا

اس طریقے کی شرط نہیں کلھ کی بات کہنا

23. صوفی

پوچھا کسی نے کہ کیسا ہوتا ہے صوفی

جسے رنج آئے جب، تو ہوتی ہے خوشی

24. درویش

بولا کہ دنیا میں کوئی درویش نہیں ہے

گر ہو کوئی درویش، تو وو درویش 'نہیں ہے'

مولانا رومی رباعیات

رباعیات

1

وو پل میری ہستی جب بن گیا دریا

چمک اٹھا ہر زررا ہوکے روشن میرا

بن کے شمع جلتا ہوں رہے عشقَ پر میں

بس لمہہ ایک بن گیا سفرے-امر میرا


2

ہوں وقت کے پیچھے اور کوئی ساتھ نہیں

اور دور تک کوئی کنارہ بھی نہیں

گھٹا ہے رات ہے کشتی میں کھے رہا

پر وو خدا رحیم بنا فضل کے نہیں


3

پہلے تو ہم پے پھرمایے ہزاروں کرم

بعد میں دے دئے ہزاروں درد او غم

بساتے عشقَ پر گھمایا خوب ہمکو

کر دیا دور جب خود کو کھو چکے ہم


4

اے دوست تیری دوستی میں ساتھ آئے ہیں ہم

تیرے قدموں کے نیچے بن گئے خاک ہیں ہم

مزھبے عاشقی میں کیسے یہ واجب ہے

دیکھیں تیرا عالم و تجھے ن دیکھ پائیں ہم

 
 


.
.


Monday, November 21, 2022

دُنیا کے مشہور ترین اشعار

محمد حسین ساحل

ممبٸی 

دُنیا کے مشہور ترین اشعار










فانوس بن کے جس کی حفاظت ہوا کرے

وہ شمع کیا بجھے جسے روشن خدا کرے

*شہیر مچھلی شہری*


مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے

وہی ہوتا ہے جو منظورِ خدا ہوتا ہے

*ثاقب لکھنوی*


بڑے شوق سے سن رہا تھا زمانہ

ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے

*ثاقب لکھنوی*


دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے

اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

*مہتاب رائے تاباں*



مٹا کر نفرتیں اپنی کریں چرچا محبت کا

چلو مل کر بناتیں ہیں نیا فرقہ محبت کا

محمد حسین ساحل ممبٸی


خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیر

سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے

*امیر مینائی*


قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

*میاں داد خان سیاح*


لب پہ آتی ہے دُعا بن کے تمنا میری

زندگی شمع کی صورت ہو خدایا میری

*علامہ اقبال*


قتل حسین اصل میں مرگِ یزید ہے

اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

*مولانا محمد علی جوہر*


وفا کی محفل سجائے  رکھنا  بس اتنا کرنا

مزاج   اپنا     بنائے   رکھنا  بس   اتنا  کرنا

شبیر احمد شاد



بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ

تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

*مرزا غالب*


دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ

تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

*کلیم عاجز*


کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب

شرم    تم   کو   مگر  نہیں  آتی

*مرزا غالب*


وحشت میں ہر اک نقشہ الٹا نظر آتا ہے

مجنوں  نظر آتی  ہے  لیلیٰ  نظر آتا ہے

*ظریف لکھنوی*


فسانے اپنی محبت کے سچ ہیں، پر کچھہ کچھہ

بڑھا بھی دیتے ہیں ہم زیب داستاں کے لئے

*شیفتہ*


تقدیر کے قاضی کا یہ فتوی ہے ازل سے

ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات

*علامہ اقبال*


خودی کا سر نہاں لا الہ الا اللہ

خودی ہے تیغ فشاں لا الہ الا اللہ

*علامہ اقبال*


دیارِعشق میں اپنا مقام پیدا کر

نیا زمانہ نئے صبح و شام پیدا کر

*علامہ اقبال*


پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر

مردِ    ناداں   پر   کلامِ   نرم و نازک  بے   اثر

*علامہ اقبال*


نہ تو زمیں  کے  لیے  ہے نہ آسماں کے لیے

جہاں ہے تیرے لیے تو نہیں جہاں کے لیے

*علامہ اقبال*


اقبال بڑا اپدیشک ہے ، من باتوں میں موہ لیتا ہے

گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا

*علامہ اقبال*


تھا  جو نا خوب   بتدریج   وہی   خوب   ہوا

کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر

*علامہ اقبال*


ہم نہ کہتے تھے کہ حالی چپ رہو

راست گوئی میں ہے رسوائی بہت

*حالی*

چیخنے والوں کی آواز کہاں جاتی ہے

کتنا سناٹا نظر آتا ہے کہرام کے بعد

شبیر احمد شاد


خلاف شرع کبھی  شیخ تھوکتا بھی نہیں

مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں

*اکبر الہ آبادی*


لگا رہا ہوں مضامینِ نو کے انبار

خبر کرو میرے خرمن کے خوشہ چینوں کو

*میر انیس*


نازکی اس کے لب کی کیا کہیے

پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے

*میر تقی میر*


آ عندلیب مل کے کریں آہ  و زاریاں

تو ہائے گل پکار میں چلاؤں ہائے دل

*سید محمد خاں رند*


وہ آئے بزم میں اتنا تو برق نے دیکھا

پھر اسکے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی

*مہاراج بہادر ب


سُنو  تعداد  کے  بل پر  ہمیں  للکارنے  والو

ہمارے پانو کی آہٹ سے لشکر کانپ جاتا ہے 

منظر خیامی

رندِ خراب حال کو زاہد نہ چھیڑ تو

تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیڑ تو

*ابراہیم ذوق*


آئے بھی لوگ، بیٹھے بھی، اٹھ بھی کھڑے ہوئے

میں جا ہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا

*آتش*


وہ شیفتہ کہ دھوم ہے حضرت کے زہد کی

میں کیا کہوں کہ رات مجھے کس کے گھر ملے

*شیفتہ*


چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے

عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے

*فدوی عظیم آبادی*


اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی

یاروں نے کتنی دور بسائی ہیں بستیاں

*فراق گورکھپوری*


داور حشر میرا نامۂ اعمال نہ دیکھہ

اس میں کچھ پردہ نشینوں کے بھی نام آتے ہیں

*محمد دین تاثیر*


فصل بہار آئی، پیو صوفیو شراب

بس ہو چکی نماز، مصلّا اٹھائیے

*آتش*


مری نمازہ جنازہ پڑھی ہے غیروں نے

مرے تھےجن کے لئے، وہ رہے وضو کرتے

*آتش*


امید وصل نے دھوکے دئیے ہیں اس قدر حسرت

کہ اس کافر کی ہاں بھی اب نہیں معلوم ہوتی ہے

*چراغ حسن حسرت*


ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی

*عزیز الحسن مجذوب*


میں اس سے ملتا تو وہ مجھکو معاف کر دیتا

ذرا    سا   کام  تھا  لیکن   ہوا  نہیں  مجھ  سے

یاسین ڈاوڑے فنا


خداکے نیک بندوں سے محبت ہوتی ہے سب کو

مجاہد کا بدن چھوتے ہی خنجرکانپ جاتا ہے

منظر خیامی

دی مؤذن نے شب وصل اذاں پچھلی رات

ہائے کم بخت کو کس وقت خدا یاد آیا

*داغ دہلوی*


 درم و دام  اپنے پاس کہاں

چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں

*غالب*


چتونوں سے ملتا ہے کچھ سراغ باطن کا

چال سے تو کافر پہ سادگی برستی ہے

*یگانہ چنگیزی*


دیکھہ کر ہر درو دیوار کو حیراں ہونا

وہ میرا پہلے پہل داخل زنداں ہونا

*عزیز لکھنوی*


اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن

بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا

*عزیز لکھنوی*


دینا وہ اُس کا ساغرِ مئے یاد ہے نظام

منہ پھیر کر اُدھر کو اِدھر کو بڑھا کے ہاتھہ

*نظام رام پوری*


گرہ سے کچھ نہیں جاتا ہے پی لے زاہد

ملے جو مفت تو قاضی کو بھی حرام نہیں

*امیر مینائی*


کپڑے دیکھ کے یہ مت کہنا غربت آئی ہے اس پر

اس کا پھٹی پتلون پہننا فیشن بھی ہو سکتا ہے

اشفاق خان دیشمکھ


یہی فرماتے رہے تیغ سے پھیلا اسلام

یہ نہ ارشاد ہوا توپ سے کیا پھیلا ہے

*اکبر الہ آبادی*


بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں

اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا

پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا

کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا

*اکبر الہ آبادی*


توڑ کر عہد کرم نا آشنا ہو جائیے

بندہ پرور جائیے اچھا خفا ہو جائیے

*حسرت موہانی*


تمہیں چاہوں، تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں

مرا دل پھیر دو، مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا

*مضطر خیر آبادی*


قلم  توڑا  گیا  ہے  تو  زباں  بھی  کاٹ  لو  میری

تمھیں دوں اور کیا میں امتحاں اپنی صداقت کا

حبیب ندیم



دیکھہ آؤ مریض فرقت کو

رسم دنیا بھی ہے، ثواب بھی ہے

*حسن بریلوی*


الجھا ہے پائوں یار کا زلفِ دراز میں

لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

*مومن خان مومن*


دیکھا کئے وہ مست نگاہوں سے بار بار

جب تک شراب آئے کئی دور ہو گئے

*شاد عظیم آبادی*


کوچۂ عشق کی راہیں کوئی ہم سے پوچھے

خضر کیا جانیں غریب، اگلے زمانے والے

*وزیر علی صبا*


محبت کی لہروں میں  بہتے چلے ہم 

یہ  لہریں  جو  آئیں  یکے   بعد آئیں

منڈاتے ہی سر اولے سر پر پڑے ہیں

 نہ آگے  بڑھے ہم نہ پیچھے ہٹے ہیں

عباس شاداب


سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں

ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں

*داغ دہلوی*


گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں

کعبے سے ان بتوں کو بھی  نسبت ہے دور کی

*غالب*


جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد

پر طبیعت   ادھر   نہیں   آتی

*غالب*


غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے

ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

*غالب*


بلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل

کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

*غالب*


اسی لئے تو قتلِ عاشقاں سے منع کرتے ہیں

اکیلے پھر رہے ہو یوسفِ بے کاررواں ہو کر

*خواجہ وزیر*


زاہد شراب پینے سے کافر ہوا میں کیوں

کیا ڈیڑھ چلو پانی میں ایمان بہہ گیا

*ذوق*


ہزار شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

*اکبر الہ آبادی*


فکر معاش، عشقِ بتاں، یادِ رفتگاں

اس زندگی میں اب کوئی کیا کیا کیا کرے

*سودا*


یہ دستور زباں بندی ہے کیسا تیری محفل میں

یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

*علامہ اقبال*


یہ بزم مئے ہے یاں کوتاہ دستی میں ہے محرومی

جو بڑھ کر خود اٹھا لے ہاتھہ میں وہ جام اسی کا ہے

*شاد عظیم آبادی*


یارب تیری نظر سے کوئی بچ نہ پائے گا

ایسا کوئی نہیں تیری جس پر نظر نہ ہو

اقبال دیشمکھ عامل


حیات لے کے چلو، کائنات لے کے چلو

چلو تو سارے زمانے کو ساتھہ لے کے چلو

*مخدوم محی الدین*


صد سالہ دور چرخ تھا ساغر کا ایک دور

نکلے جو مے کدے سے تو دنیا بدل گئی

*گستاخ رام پوری*


نرگسی چشم سے اب  اشک بہایا نہ کرو 

خاک میں قیمتی گوہر  یہ  ملایا  نہ کرو

مراد ساحل


اگر بخشے زہے قسمت نہ بخشے تو شکایت کیا

سر تسلیمِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے

*میر تقی میر*


اندازِ بیاں گرچہ بہت شوخ نہیں ہے

شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات

*علامہ اقبال*


آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک

کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک

*مرزا غالب*


دیکھے ہیں بہت ہم نے ہنگامے محبت کے

آغاز بھی رسوائی انجام بھی رسوائی

*صوفی غلام مصطفےٰ تبسم*


دائم آباد رہے گی دنیا

ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا

*ناصر کاظمی*


کہنے   کو   یہ جہاں   تو مثل بہشت ہے

ایسی بہشت جس میں کہ رہنا عذاب ہو

امیر حمزہ حلبے


نیرنگئ سیاست دوراں تو دیکھئے

منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ تھے

*محسن بھوپالی*


جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی 

اس عہد کے سلطان سے کچھہ بھول ہوئی ہے 

*ساغر صدیقی*


مانگ کر اُن سے گر رسوائی ملے تو کوئی بات نہیں

تاکہ انہیں شکوہ  نہ رہے کہ ہم نے ان سے مانگا ہی نہیں

عبدالمجید پرکار فانی


اب تو جاتے ہیں بت کدے سے میر

پھر ملیں گے اگر خدا لایا

*میر تقی میر*


شرط سلیقہ ہے ہر اک امر میں

عیب بھی کرنے کو ہنر چاہئیے

*میر تقی میر*


بہت کچھ  کہنا ہے کرو میر بس

کہ اللہ بس اور باقی ہوس

*میر تقی میر*


بھانپ ہی لیں گے اشارہ سر محفل جو کیا

تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں

*مادھو رام فرخ جوہر آبادی*


بیٹھنے کون دے ہے پھر اس کو

جو تیرے آستاں سے اٹھتا ہے

*میر تقی میر*


ہم فقیروں سے بے ادائی کیا

آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

میر تقی میر*


سخت کافر تھا جس نے پہلے میر

مذہبِِ عشق احتیار کیا

*میر تقی میر*


دن کٹا، جس طرح کٹا لیکن

رات کٹتی نظر نہیں آتی

*سید محمد اثر*


تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب

اب جان ہی کے ساتھہ یہ آزار جائے گا

*میر تقی میر*


میرے سنگ مزار پر فرہاد

رکھ کے تیشہ کہے ہے، یا استاد

*میر تقی میر*


سرخ رو ہوتا ہے انساں ٹھوکریں کھانے کے بعد

رنگ لاتی ہے حنا پتھر پہ پس جانے کے بعد

*سید غلام محمد مست کلکتوی*

 

زندگی  جبر  مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانےکس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں

*ساغر صدیقی*


ہشیار  یار  جانی، یہ  دشت ہے ٹھگوں کا

یہاں ٹک نگاہ چوکی اور مال دوستوں کا

*نظیر اکبر آبادی*


دنیا میں ہوں، دنیا کا طلب گار نہیں ہوں

بازار   سے  گزرا  ہوں، خریدار  نہیں ہوں

*اکبر الہ آبادی*


اے عدم احتیاط لوگوں سے

لوگ  منکر  نکیر  ہوتے  ہیں

*عبدالحمید عدم*


دیوار  کیا  گری  مرے   خستہ  مکان  کی 

لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے

*سبط علی صبا*


اب اداس پھرتے ہو  سردیوں کی شاموں میں

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

*شعیب بن عزیز*


گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے

لیکن اتنا  تو  ہوا  کچھ لوگ  پہچانے گئے

*خاطر غزنوی*


جنازے پر مرے لکھ دینا یارو!

محبت  کرنے   والا   جارہا   ہے

*راحت اندوری*


جن پر لٹا چکا تھا میں دنیا کی دولتیں

ان وارثوں نے مجھکو کفن  ناپ کر  دیا

*نواز دیوبندی*


اللہ   مرے  رزق  کی  برکت  نہ  چلی جائے

دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے

*ماجد دیوبندی*


جانے کتنے سلسلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر 

آنسوؤں کے قافلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر

معین علی آزاد


یہ پھول کوئی مجھکو وراثت میں ملے ہیں

تم  نے  مرا  کانٹوں  بھرا بستر   نہیں دیکھا

*بشیر بدر*


رکھ دیے ہونگے عزیزوں نے کفن میں کانٹے

بعد مرنے کے جو چبھتے ہیں بدن میں کانٹے

*ساجد جامنیری*


جو ہے جوشِ نمو باقی تو ہر پیکر سے نکلونگا

ترا ہی خون بنکر میں ترے خنجر سے نکلونگا

کئی صدیوں سے زندہ ہوں اسی دھرتی کے سینے میں

زرا راستہ تو ملنے دے کسی پتھر سے نکلونگا




پیشکش: محمد حسین ساحل

بزم ابر سنبھل مشاعرہ

  بزمِ ابر سنبھل کے زیرِ اہتمام خوب صورت  مشاعرہ ! میرا روڈ : (رپورٹ : محمد حسین ساحل) میرا روڈ سیکٹر 4 پر واقع راشٹرا وادی کانگریس پارٹی کے...