محمد حسین ساحل
ممبٸی
سرفراز صوبیدار : نوک قلم سے ظالم کا
سینہ لہو لہان کرنے والا شاعر!
انگریزی ماحول میں رہ کر اُردو میں میں شاعری کرنا یہ سب کے بس کا روگ نہیں ہے۔حال ہی میں سرفراز صوبیدار کے غزل کا پہلا مجموعہ ” پہلا سفر “ پہلی بار نظر نواز ہوا جس کی پہلی غزل پہلی بار میرے دل و دماغ کو یوں بیدار کرگٸی کہ پہلی بار میں نے کسی شاعر کا مجموعہ ایک ہی دن میں ہوش وحواس کے ساتھ پڑھ لیا(ورق گردانی نہیں کی ) اور غزل کی سادگی میں سبق آموز باتیں اور دلفریب اشعار نے سرفراز صوبیدار کے قد کو میری نظر میں اور بلند کیا۔ اللہ کرے زور ”کی بورڈ“ اور زیادہ !سرفراز صوبیدار نے مجوعہ کلام کو ”پہلا سفر“ نام دے کر اپنے خلوص، اپنے بڑھکپن کو مزید بلند کیا کیونکہ یہ مجموعہ کلام پہلا سفر نہیں بلکہ پہلی منزل ہے !شاعر گجرات کا ہو، کوکن کا ہو یا بھلے وہ ہمالیہ پر رہتا ہو مگر وہ اُردو ادب کا ایک رکن ہے ایک سپاہی ہے۔سرفراز صوبیدار کا یہ پہلا سفر ہے پہلی منزل نہیں ہے !خوشی ، رنج ، دکھ ،درد کا یہ اثر ہےکتابی جہاں میں یہ پہلا سفر ہے( سرفراز صوبیدار )مجھےناز ہے کہ میں نے آج ایک ایسے قلم کار اور شاعر پر قلم اُٹھایا ہے جو اولاً تو ایک بلند کردار انسان ہے،ثانیاً، مستقل مزاجی کے ساتھ گزشتہ ایک دہاٸی سے مصروفِ شعر و سخن ہے اور گیسوئے اُردو کو نکھار رہا ہے سنوار رہا ہے۔ اِس Equation کو اُن کی زندگی میں ہم مستقلاً کارفرما دیکھتے ہیں اور یہی خصوصیت میرے اِس مضمون کا محرک بنی ہے۔سچی بات تو یہ ہے کہ سرفراز صوبیدار پر قلم اُٹھا کر مجھے وہ آسودگی محسوس ہوتی ہے جو کسی تبصرہ نگار کو مطلوب ہوتی ہے ۔ اِس مضمون کی تخلیق نے طبعیت میں جو خوش گواری پیدا کردی ہے اِس سے لگتا ہے جیسے میرے اندر کے تبصرہ نگار کو ایک عرصہ بعد سکون و قرار میسر آیا ہو !جب ہو اندھیرا رخ پہ گراتے ہیں وہ نقاباچھا رہا مذاق ہے اہل نظر کے ساتھمفلس کی جھونپڑی کو عمارت نگل گئیساری سیاہی ایک عبارت نگل گئی( سرفراز صوبیدار )اگر قاری درج ذیل اشعار کا مطالعہ کریں تو ان اشعار میں گھر گھر اور شہر شہر کے حالات کی معقول عکاسی نظر آتی ہے۔غزل میں محبوب کے لب گیسو آنکھیں اور ناف کمر کو نظر انداز کرکے ظالم ، آگ ، قاتل اور خنجر پر لکھنے کی جرات کرنا یہ سرفراز صوبیدار کا طرہ امتیاز ہے۔ گویا وہ نوک قلم سے ظالم کو زخمی کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں :پھر چلی ہے ہوا تعصب کیشمع ہے روشنی نہیں باقیدُشمنی کا رواج ہے صاحباب کہیں دوستی نہیں باقیبیٹھے ہیں کرسیوں پہ عدالت میں شان سےظالم ہیں سارے کوئی بھی عادل نہ رہاایسی لگاٸی آگ کسی نے ہنر کے ساتھآنگن بھی جل رہا ہے پرانے سے شجر کے ساتھ( سرفراز صوبیدار )سرفراز صوبیدار کی شاعری روایت و جدت کا حسین امتزاج ہے ، مضامین کا تنوع، جداگانہ اسلوب، مشکل قوافی میں بھی سلاست و روانی، نادر پیرایہ اظہار انہیں سب سے ممتاز کرتا ہے:نظر کی قید میں رکھ کر رہاٸی دیتا ہےقریب آتے ہی ظالم جدائی دیتا ہےمجھے بھی حقیقت کا جلوہ دکھا دوبرا ہوں تو اپنی نظر سے گرا دورگوں میں نور کی گردش کا ہوتا ہے احساسکوئی چراغ سا روشن لہو میں رہتا ہے( سرفراز صوبیدار )سرفراز صوبیدار ! لفظوں کی کاری گری اور جادوگری سے خوب واقف ہیں یہی فکر کی بالیدگی انہیں جاوداں کرتی ہے ، ان کی غزلیں قاری کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہیں ان کے یہاں ایک نیا آہنگ نظر آتا ہے معنی آفرینی اور سادگی سادگی میں بڑی بات کہہ دینا جو قاری کو متحرک کردے ان کے کلام کا جزو خاص ہے ان کے فکری اسلوب کو واضح کرنے کے لئے پیش ہیں چند منتخب اشعار:سب حسینوں سے کہو آج بھی حال اچھا ہےسادگی رُخ سے عیاں ہو تو جمال اچھا ہےمجھے ہےشوق تلاطم سے اب گزرنے کادکھاؤں گا میں ہنر ڈوب کے اُبھرنے کاحالانکہ وہ امیر تھا رتبہ عظیم تھادولت مگر غریب کی وہ چھین کر گیاسرفراز صوبیدار نے جگہ جگہ غالب کے مصرعوں پر بھی طبع آزماٸی کی یا یوں کہیے کہ غالب کے معیار تک پہنچنے کی سعی کی ہے مگر وہ غالب کے معیار تک تو نہیں پہنچے لیکن اس تگ و دو میں انھوں نے اپنا ایک معیار پیدا کیا اور اس سنگ میل تک پہنچنے کی نٸے قلمکار ضرور کوشش کریں گے۔پربت ہے میرے پیچھے تو دریا مرے اگےاس پہ یہ ستم ، چلتا ہے دریا مرے آگےپھر میری نگاہوں کو سکوں کیسے ملے گا”ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے“سرفراز صوبیدار کے اشعار مجھے اتنے پسند ہے اگر انھوں نے جملہ حقوق اپنے نام محفوظ نہ کیے ہوتے تو دو تین اشعار میں چرا لیتا۔اللہ سے دعا گو ہوں کہ سرفراز صوبیدار کا یہ پہلا سفر جاری رہے اور وہ اُس منزل تک پہنچے جہاں دیگر شعرا پہنچنے کے لیے تڑپتے ہیں ، خواب دیکھتے ہیں ۔x