محمد حسین ساحل
ممبٸی
اپنی ساس کو اپنی ماں سے زیادہ پیار کیجیے
ساس کو اُردو میں خوشدامن کہتے ہیں ابھی تک سمجھ میں نہیں آتا اُردو میں سسر یا خسر کے آگے خوش لفظ کیوں نہیں لگایا جاتا ہے۔
شادی شدہ یا منگنی شدہ لڑکیوں کے لٸے کار آمد باتیں !
اپنی ساس کا خصوصی خیال رکھیں۔ انھیں چاٸے اور دواٸی وقت پر دیجیے۔
اپنی ساس کا سر دباٸیے ، اپنی ساس کے پیر دباٸیے ( بھول کر بھی گلا دبانے کی کوشش نہ کریں )
اپنی ساس اگر کھانسی ، سردی ، زکام یا بخار سے پریشان ہے تو فوراً ڈاکٹر کو فون کرکے بلاٸیے یا ساس کو ڈاکٹر کے پاس لے جاٸیے۔
اپنی ساس کو وقت پر چاٸے کافی اور دواٸی دیتے رہیے۔
کوشش یہ کریں کہ ساس کے ساتھ کھانا کھاٸیں۔ اپنے موباٸل سے زیادہ اپنی توجہ ساس کی باتوں پر دیجیے ، ساس کی باتوں کو پورا پورا سُننے کے بعد اپنا جواب دھیمے لہجے میں بڑی شاٸستگی سے دیجیے۔
سسرال کے رشتے داروں سے اچھے تعلقات قاٸم کیجیے، اُن کا احترام کیجیے۔
”ایک بہو کا کہنا ہے کہ اُردو میں جب میں نے سُنا کہ ساس کو خوش دامن کہتے ہیں تو میرا اُردو پر سے وشواس ہی اُٹھ گیا !“
گھر میں اپنی نند سے بھی اچھے تعلق بناٸیں رکھیں۔ یاد رکھیں نند آپ کے ساس کی سکریٹری ہوتی ہے۔ وہ آپ کی ساس کو آپ کی غلطیوں سے آگاہ کرتی رہتی ہیں وہ آپ کے اچھاٸیوں کی کبھی تعریف نہیں کریں گی۔
اگر آپ
فون پر مصروف ہیں اور دودھ اُبل کر بہہ گیا یا کانچ کا کوٸی سامان ٹوٹ گیا تو ساس کچھ کہنے سے پہلے آپ کہہ دیجیے ” ماں ! آپ کچھ مت کہو کچھ آنے والی بلا ٹل گٸی “ ساس یہ بات سُن خاموش ہو جاٸےگی۔
ساس جب بھی بہو تھی تو اس نے اپنی ساس کی ڈانٹ ڈپٹ یا ظلم ستم تو سہا ہوگا ، وہ اس کا بدلا اپنی بہو سے کبھی نہ کبھی اور کہیں نہ کہیں ضرور لیں گی مگر آپ کو اپنے سسرال میں رہنا ہے تو آپ اپنے اندر قوت برداشت ضرور پیدا کریں۔ سسرال والوں کی غیبت ہرگز اپنے میکے میں نہ کریں۔
ہمارے معاشرے میں ہمیشہ ہی سے ساس، بہو کے جھگڑے عام ہیں۔ بیٹے کی شادی کے بعد بیوی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر صرف اس کا بن کے رہے اور ماں کو ایسا لگتا ہے کہ بیٹا اب ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس لیے وہ بہو کو نظرانداز کرتے ہوئے بیٹے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوششیں شروع کردیتی ہے۔ یوں کھینچا تانی شروع ہوجاتی ہے، جو کبھی کبھی بڑے جھگڑے کی صورت بھی اختیار کر جاتی ہے۔
یہ وہ دل چسپ ’’جنگ‘‘ ہے، جن کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دونوں خواتین یہ بات بھول جاتی ہیں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہونے والے جھگڑے گھر کے پُرسکون ماحول کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں، جس سے گھرکا ہر فرد متاثر ہوتا ہے۔ پھر ساس بہو کے جھگڑوں میں جیت فریقین کی نہیں ہوتی، بلکہ شیطان کی ہوتی ہے، جو ہر گھر میں فتنہ و فساد بپا کرنا چاہتا ہے۔
مختصر یہ کہ اپنے خلوص، اپنے حسن سلوک اور پیار و محبت سے اپنی ساس کو اپنی مٹھی میں کیجیے۔ ساس خوش تو گھر کا ماحول خوشگوار رہے گا۔ اپنی ساس کو اپنی ماں سے زیادہ پیار کیجیے !
عاصم پیر زادہ کے چار مصرعے :
داستان عشق میں نے جب کہی سسرال میں
میرے سالے گالیاں بے انتہا دینے لگے
ساس نے ڈنڈا اٹھایا اور سسر نے چپلیں
''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے''
عوماََ ماٸیں اپنی بیٹیوں کو سسرال میں کیسے رہنا چاہیے یہ نہیں سیکھاتی بلکہ وہ یہ سیکھاتی ہے کہ شوہر کو اپنی مٹھی میں کیسے کیا جاٸے۔ گھر کی بڑی بوڑھی کو چاہیے کہ اپنی بیٹی کا رشتہ ہوتے ہی انھیں سسرال میں رہنے کے گُر یا آداب ضرور سیکھا ٸیں۔