(رپورٹ : محمد حسین ساحل)
کوکن : ”شعراٸے کوکن“ یہ ان قلمکاروں کا گروپ ہے جو خطہ کوکن سے تعلق رکھتے ہیں یا یو ں کہیے کہ اس گروپ کے تمام ممبران کوکنی ہیں جو یا تو ہندوستان میں ہیں یا تلاش معاش میں دُنیا کے متفرق ممالک میں عارضی یا مستقل طور پرمنتقل یا آباد ہوچکے ہیں مگر انھیں اُردو سےمحبت ہے سر زمین کوکن سے محبت ہے اورکوکنی زبان سے محبت ہے۔ اگر ہم خطہ کوکن کا جاٸزہ لیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ اُردو کو زندہ رکھنے میں اہلیان کوکن کا بھی ایک اہم رول ہے۔ ”شعراٸے کوکن“ کی تشکیل اس بات کا ثبوت ہے کہ اہل کوکن اُردو کو بطور ایک وراثت سمجھ کر اس کی حفاظت میں لگی ہوئی ہے۔ملک اور بیرون ملک تعلیمی،سماجی سیاسی اور ادبی حلقوں میں اہلیان کوکن کا بھی بول بالا ہے۔
شعراٸے کوکن کا اولین عالمی مشاعرہ زوم پر پیش کیا گیاجس کی صدارت کے فراٸض کوکن کے نوجوان شاعر مراد ساحل نے انجام دی۔ مہمانان خصوصی محمد حسین ساحل اورمہمان اعزازی بلال مقدم بزمی تھے۔
نظامت کے فرائض اشفاق خان دیشمکھ نے اس چابکدستی کے ساتھ مسکراتے ہوئے انجام دئے کہ مشاعرہ کا گل گلزار سماں اول تا آخیر قائم رہا۔ ناظم مشاعرہ نے ہر شاعر کو نہایت ہی ادب و احترام اور مع اشعار دعوت سخن دی جس سے ہر شاعر پُر جوش طریقے سے اپنا کلام پیش کر رہا تھا۔مشاعرہ کا آغاز تلاوت کلام سے ہوا۔ تلاوت کلام پاک کی سعادت
اشفاق دیشمکھ کے فرزند قاری شکیب دیشمکھ کو نصیب ہوٸی مشاعرہ قریب ڈھائی گھنٹے تک چلا شعراٸے کرام کے کلام نے مشاعرے کے آخر تک تمام سامعین پر ایک جادو سا کر دیا تھا، وہ آخر تک مشاعرے میں بنے رہے اور لطف اندوز ہوتے رہیں۔
سامعین نے نہ صرف مشاعرے کا لطف لیا بلکہ ہر شاعر کو خوب داد و تحسین سے نوازا۔یہ مشاعرہ انتہائی کامیاب رہا جس کا سہرا تمام منتظمین کے سر ہے جن کی کوششوں سے اس کامیاب مشاعرے کا انعقاد ممکن ہو سکا ۔ جناب صدر نے اپنی مصروفیت کی وجہ سے معذرت طلب کرلی جس کی خانہ پوری محمد حسین ساحل نے کی انھوں نے اپنے صدارتی کلمات میں مشاعرے کوایک کامیاب مشاعرہ قرار دیا انہوں نے کہا کہ ”شعراٸے کوکن“ گروپ نے کئی نئے شعراء کو متعارف کرایا ہے اور اس سلسلہ کو جاری رکھنے کی گزارش بھی کی۔
صابر عمر گالسولکر نے مشاعرہ کی کچھ یوں تعریف کی :
” بہت خوبصورت شام تھی نوجوان شعرائے کرام (یاسین ، معین، اسامہ، امیر ) کی شاعری ان کے خیالات سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا تو سنئیر شعراء کے تجربات بھی اشعار میں نکھر کر سامنے آئے تھے۔
صابر عمر گالسولکر:
خوشبو میں بسا ایک نگر دیکھ رہا ہوں
میں اپنی محبت کا اثر دیکھ رہا ہوں
اوسامہ ابن راہی کی نظر میں یہ مشاعرہ : ” ہمارے لیے بڑی خوبصورت رات تھی ۔“
اسامہ ابن راہی:
سیدھی باتیں ہیں سب ہماری
عشق میں فلسفہ نہیں ہوتا
مسکرا کر نظر جھکا لینا
راؔہی یہ بے وجہ نہیں ہوتا
محمد حسین ساحل نے مشاعرہ کے تعلق سے درج ذیل تاثرات پیش کیے :
”شعراٸے کوکن“ کا نہ صرف یہ مشاعرہ تھا بلکہ اتحاد و اتفاق کی ایک مجلس تھی۔
محمد حسین ساحل :
مٹا کر نفرتیں اپنی کریں چرچا محبت کا
چلو ملکر بناتے ہیں نیا فرقہ محبت کا
عباس شاداب کے تاثرات :
صابر عمر کی رہنمائی میں اور سبھی ایڈمن کی نگرانی میں ڈھائی گھنٹے تک یہ پہلا مشاعرہ چلتا رہا۔ واقعی مبارکباد پیش کرنے میں بھی کافی فخر محسوس کرتا ہوں۔
محبت کی لہروں میں بہتے چلے ہم
یہ لہریں جو آئیں یکے بعد آئیں
منڈاتے ہی سر اولے سر پر پڑے ہیں
نہ آگے بڑھے ہم نہ پیچھے ہٹے ہیں
اشفاق خان دیشمکھ :
کپڑے دیکھ کے یہ مت کہنا غربت آئی ہے اس پر
اس کا پھٹی پتلون پہننا فیشن بھی ہو سکتا ہے
گمنام سب ہیں شاعر پر ایک شخص دیکھو
مشہور ہو گیا ہے غزلیں چرا چرا کے
سیدہ تبسم ناڈکر :
چاہ برباد کرے گی ہمیں معلوم نہ تھا
زندگی غم میں کٹے گی ہمیں معلوم نہ تھا
اقبال دیشمکھ عامل :
یارب تیری نظر سے کوئی بچ نہ پائے گا
ایسا کوئی نہیں تیری جس پر نظر نہ ہو
مراد ساحل :
,تمام شعراء کو دل کی عمیق گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتا ہوں
نرگسی چشم سے اب اشک بہایا نہ کرو
خاک میں قیمتی گوہر یہ ملایا نہ کرو
یاسین ڈاوڑے فنا:
میں اس سے ملتا تو وہ مجھکو معاف کر دیتا
ذرا سا کام تھا لیکن ہوا نہیں مجھ سے
امیر حمزہ حلبے :
کہنے کو یہ جہاں تو مثل بہشت ہے
ایسی بہشت جس میں کہ رہنا عذاب ہو
معین علی آزاد
جانے کتنے سلسلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر
آنسوؤں کے قافلے ہیں آنکھ کی دہلیز پر
عبدالمجید پرکار فانی :نے اپنے منفرد انداز میں سامعین کو اپنے اشعار کے ذریعہ ایک نٸی سوچ و فکر کا زاویہ پیش کیا :
مانگ کر اُن سے گر رسوائی ملے تو کوئی بات نہیں
تاکہ انہیں شکوہ نہ رہے کہ ہم نے ان سے مانگا ہی نہیں
یہ بھی کوئی انتہا ہے ان کے مکر کی اے مجید فانی
وہ دلوں میں کینہ رکھتے ہیں اور دعا بھی ہم ہی سے کراتے ہیں
ناظم مشاعرہ اشفاق خان دیشمکھ ہندوستان وقت کے مطابق شب 12.30 بجے مشاعرہ ختم نہیں بلکہ ملتوی
ہونے کا اعلان کیا۔